BABA G
GHULAM
MUHAMMAD
ALVI(R.A)

اقوال باباجیؒ

جب بندہ اپنےرب کاہوجاتاہےتو اُس کے لیےرب ہر چیزکومسخر کردیتاہے

شجرہ نسب علوی(اعوان)

ؓحضرت علی کرم اللہ وجہہ

علوی اولادِعلی کرم اللہ وجہہ میں سیّدۂ کائنات سلام اللہ علیھا کے علاوہ جو دوسری بیویوں کی اولاد ہے ان کو عرب ممالک میں غیر فاطمی اولاد اور ایران میں اور کئی ممالک میں غیر فاطمی سادات(سیّد) کہتے ہیں، لیکن سیّدۂ کائنات سلام اللہ علیھا کی اولادِعلی حضرت امام حسنؓ و حضرت امام حسینؓ کی نسبی اولاد ہی سیّد سادات ہیں۔ دوسری اولادِعلی علوی سادات نہیں کہلاتی۔

ابوالفضل غازی عباس علمدارؓ

آپؓ حضرت علی کرم اللہ وجہہؓ کے صاحبزادے تھے۔آپؓ کی والدہ کا نام فاطمہ ام البنؓین تھا، جن کا تعلق عرب سردار قبیلہ بنی کلاب سے تھا۔آپؓ ولیہ کامل، محدثہ، فقیہہ، معرفت اہلبیت اطہار اور علومِ ظاہروباطن کی حامل تھیں۔ واقعہ کربلا میں اپنے بھائی حضرت امام حسینؓ بن علی کرم اللہ وجہہ کے ساتھ وفاداری کے ضرب المثل وفا کی وجہ سے شہنشاہِ وفا کے طور پر مشہور ہوئے۔ آپؓ کے القاب افضل الشہدا، باب الحوارج، قمربن ہاشم، علمدارِکربلا، غازی، ثقائےسکینہ ہیں۔ آپؓ کی ولادت 4شعبان 26ھ بمطابق 15مئی 647ء مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپؓ کی شادی حضرت لبابہ بنتِ عبیداللہ سے ہوئی۔ آپؓ کی شہادت 33سال کی عمر میں 10محرم المحرم 61ھ بمطابق 10اکتوبر 680ء کرب وبلا کے مقام پر ہوئی اور دریائےفرات کے قریب آپؓ کا روضہ مبارک ہے۔ آپؓ کی زندہ کرامت جو آج بھی ہے کہ دریائےفرات جو روضہ مبارک سے کچھ فاصلے پر تھا آج قبر مبارک کے گرد چکر لگاتا ہے۔ آپؓ کی اولاد دنیا کے مختلف ممالک میں عرب، عراق میں سادات علوی، مصر میں سادات بنی ہارون، اردن میں سادات بنو شہید، یمن میں سادات بنی مطاع، ایران میں سادات علوی ابوالفضل اور برصغیرپاک وہند میں اعوان قطب شاہی مشہور ہیں۔

عبیداللہؓ

حضرت عباسؓ کے صاحبزادے، یارانِ زین العابدین اور پسرانِ محمدباقر سے تھے۔ والدہ کا نام سکینہ جو دختر عبداللہ بن عباس بن عبدالمطلب کی ہاشمیہ سے تھیں۔ آپ ابی طالب کی نسل سے انتہائی پرہیزگار، متقی، کمال عابد اور بہادر تھے۔ ان میں کوئی عیب عیوب نہ تھا۔ آپ کی وفات 27شوال 120ھ چہارشنبہ کو ہوئی اور مدفن جنت البقیع مدینہ منورہ میں ہیں۔

حسنؓ

حضرت حسن بن عبیداللہ بن عباس وہ آخری ہستی ہیں جو مدینہ منورہ میں رہے اور ۱۸۰ھ میں جنت البقیع میں دفن ہوئے۔ ان کی اولاد میں حضرت حمزہ بغداد چلے گئے۔ حضرت حسن بن عبیداللہ بن عباس کی والدہ ماجدہ کا نام مریم جو بطریقیت میں نسبت حضرت امام جعفر سے تھیں علی بن عبیداللہ بن جعفر طیار بن ابی طالب کی دختر تھیں۔ آپ کی وفات مدینہ منورہ اور مدفن جنت البقیع میں ہے۔

حمزہ الاکبرؓ

شیخ امیر المومنین حضرت حمزۃ الاکبر مشہور ہیں۔ جو مدینہ منورہ سے بغداد تشریف لے آئے۔ ان کی اولاد نے عقیدہ شیعہ اختیار کر لیا۔ ۱۹۰ھ میں پچاس سال سے زیادہ عمر میں وفات پائی اور مقبرہ قریش میں دفن ہوئے۔

جعفرؓ

علیؓ

قاسمؓ

طیارؓ

ابویعلی حمزہؓ

یعلیؓ

عونؓ(قطب شاہ)

علوی اولادِعلی کرم اللہ وجہہ میں سیّدۂ کائنات سلام اللہ علیھا کے علاوہ جو دوسری بیویوں کی اولاد ہے ان کو عرب ممالک میں غیر فاطمی اولاد اور ایران میں اور کئی ممالک میں غیر فاطمی سادات(سیّد) کہتے ہیں، لیکن سیّدۂ کائنات سلام اللہ علیھا کی اولادِعلی حضرت امام حسنؓ و حضرت امام حسینؓ کی نسبی اولاد ہی سیّد سادات ہیں۔ دوسری اولادِعلی علوی سادات نہیں کہلاتی۔

مناقب

از: محمد صدیق ساجد علوی، اپریل 1964 ،راولپنڈی
حاضر غلام ہوا درِ بابا غلام پر
یک چشمِ التفات محمدﷺ کے نام پر
سر پر ترے ولایتِ کبریٰ کا تاج ہے
حق نے بٹھایاہے تجھے اونچے مقام پر
محفل میں تیری داستاں چھڑتی ہے آج بھی
لکھا ہے تیرا نام دریچہ و بام پر
جلوہ گہِ جمالِ خدا تیری بارگاہ
ہے جس کا در کھلا ہوا ہر خاص و عام پر
زاہد ہے محوِ رقص ترے شوق وصل میں
شیدا ہے متقی ترے بادہ و جام پر
محرومیوں کا زہر مری جان کھا گیا
للہ رحم کیجئے مجھ تلخ کام پر
ہر صبح پُر بہار ہو، ہر شام پُر خمار
رنگِ جمال برسے مرے صبح و شام پر
حق سے مری مراد مجھے مانگ دے کریم
ہو حاضری میری درِ خیرالانام پر
ہدیہ ترے حضور عقیدت کا پیش ہے
دل دیکھنا، نہ جانا مرے شعر خام پر

کرامات باباجیؒ

*All images are conceptual.
Image no= 0

ٹِبّہ(ڈھیری)

بکھاری گاؤں سے موضع کڑاہی جانے والے راستے میں ایک ٹبہ(ڈھیری) جس کو باباجیؒ کی بیٹھک کہا جاتا ہے، آج بھی موجود ہے، جہاں باباجیؒ جنات کو قرآن مجید پڑھایا کرتے، اب بھی وہاں جنات کی موجودگی کے آثار ملنے کی وجہ سے اس بیٹھک والی جگہ کا احترام کرتے ہیں۔ چند سال پہلے اس ڈھیری کے ساتھ چند گھر آباد ہوئے، مکانات تعمیر کر کے ایک صاحبِ خانہ نے بیٹھک والی جگہ اپنے صحن میں شامل کرنے کے لئے ٹریکٹر سے ہموار کرنے کی کوشش کی۔ گاؤں کے بزرگ لوگوں کے منع کرنے کے باوجود ٹریکٹر لگایا تو ان کے گھر میں اچانک آگ لگنا شروع ہو گئی اور ٹریکٹر کا بلیڈ بھی ٹوٹ گیا۔ گاؤں کے لوگوں نے کہا کہ یہ بابا جیؒ کی بیٹھک کی جگہ ہے، اس لئے اب ان کے مزار پر جا کر دعا کرو اور توبہ کر لو، تو اس کے بعد آگ لگنا بھی بند ہو گئی اور وہ بیٹھک کی جگہ اسی طرح موجود ہے۔ علاقے کے لوگوں کو کوئی پریشانی یا مصیبت آجائے تو وہ باباجیؒ کی خدمت میں دعا کے لئے حاضر ہوتے۔

Image no= 1

شاہین کی بازیابی

صوبیدار محمد اشرف صاحب نے اپنے والد صاحب کے حوالے سے یہ بتایا کہ ایک دفعہ ہزارہ کے علاقے کے لوگ شکار کی غرض سے پوٹھوار میں شاہین(باز) کے زریعے شکار کرتے ہوئے آئے تو ان کا شاہین گم ہو گیا اور واپس نہ آیا۔ دودن بعد انہوں نے باباجیؒ کی خدمت میں حاضر ہو کر دعا کروائی۔ باباجیؒ اس وقت قبرستان کے پاس سے گزر رہے تھے۔ دعا کرنے کے ساتھ اپنا ایک ہاتھ پیچھے کی طرف کر کے کہا یار ادھر پیچھے کانٹوں کی باڑ میں دیکھو، ادھر ہی ہو گا۔ انہوں نے دیکھا تو شاہین کے پروں پر برف جمی ہوئی تھی اور کانٹوں کی باڑ میں ہی تھا۔ حالانکہ اس علاقے میں کبھی برف نہیں پڑتی۔ باباجیؒ کی زندہ کرامت دیکھتے ہوئے ان لوگوں نے شکریہ ادا کر کے اجازت لی۔

Image no= 2

مویشی چوروں کی سزا

اس گاؤں میں لوگوں کو ہمیشہ باباجیؒ آپس میں صلہ رحمی کرنے اور ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنے کی خصوصی تاکید فرماتے۔ اگر کوئی اس پر عمل نہیں کرتا تو مصیبت میں گرفتار ہو جاتا۔ اس گاؤں میں کئی مرتبہ مویشی چوروں نے واردات کی۔ جب بھی وہ واردات کرتے تو رات بھر اُدھر ہی گھومتے رہتے اور پکڑے جاتے۔ گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ ہمارے گاؤں میں باباجیؒ کی دعا کے صدقے اول تو چوری ہوتی ہی نہیں اور اگر ہو بھی جائے تو چور پکڑے جاتے ہیں۔

Image no= 3

دیوار چل پڑی

منقول ہے کہ موضع دلہہ سے ایک بارات جس میں سارے باراتی گھوڑوں پر سوار تھے، بکھاری گاؤں گزر رہی تھی اور بارات دیکھنے کے لئے گاؤں کے لوگ بھی باہر نکل آئے۔ باباجیؒ کے دو صاحبزادے چھوٹی عمر کے تھے۔ عمر اور مخدوم دونوں ایک دیوار پر بیٹھ کر بارات دیکھنے لگ گئے۔ باراتیوں میں سے کسی نے کہہ دیا کہ باراتی سب سوار ہیں۔ آپ کے پاس گھوڑا کوئی نہیں۔ اس پر عمر اور مخدوم نے جواب میں کہا کہ ہمارا گھوڑا یہی ہے، چل گھوڑے چل تو دیوار میں حرکت پیدا ہوئی اور وہ چل پڑی۔ اس پر بارات رک گئی اور دیور بھی رک گئی۔ دونوں صاحبزادے دیوار سے اتر کر گھر کی طرف چلے گئے۔ لوگوں کا ہجوم ہوا تو باباجیؒ کے گھر آ کر صاحبزاوں سے کہا کہ ایسی باتوں کا اظہار نہیں کرتے۔ گھر میں بھی لوگ آنا شروع ہو گئے۔ دونوں صاحبزادوں کی اچانک طبیعت خراب ہو گئی اور وہ اسی دن اللہ کو پیارے ہو گئے۔ ان کی قبور بھی مزار کے باہر حویلی میں ہی موجود ہیں۔

Image no= 4

دربار بری سرکار کے مجذوب کی حاضری

ڈاکٹر قاضی محمد افضل علوی صاحب کے تایا محترم قاضی فضل نور صاحب(مرحوم) نے اپنے دادا جان کے حوالے سے بتایا کہ ایک دن مسجد میں باباجیؒ حسبِ معمول اپنی جگہ پر بیٹھے تھے کہ ایک مجذوب ملنگ دوکتے اٹھائے ہوئے آیا اور سیدھا مسجد میں باباجیؒ کے پاس آ کر کہنے لگا کہ دربار بری سرکار سے آپ کو ملنے کے لئے آیا ہوں، پیاس لگی ہے باباؒ ٹھنڈی بوٹی پلائیں۔ باباجیؒ کے پاس ایک آدمی بیٹھا تھا، اس کو انہوں نے کونڈی ڈنڈا لانے کے لئے کہا اور مسجد کے باہر تالاب کے کنارے سے بوٹی کے پتے اتار کر لائے اور کونڈی میں گھوٹ کر پانی ڈال کے مجذوب کو پلا دیا اور وہ اس کے بعد اجازت لے کر چلا گیا۔ وہاں موجود آدمی نے باباجیؒ سے کہا کہ آپ تو شریعت کے پابند ہیں یہ ملنگ کو کیا پلا دیا۔ آپؒ نے کہا کہ اس لنگری سے تم بھی ذائقہ لے لو۔ اس نے انگلی لگا کر زبان پر لگائی تو عجب میٹھا مزیدار ذائقہ آیا کہ وہ زندگی بھر اکثر اپنی انگلی منہ میں ڈال کر چوستا رہتا اور کہتا بڑا مزیدار ہے۔ مغل کسر کے قبیلہ صاحب خنانی کا یہ فرد تھا، اب بھی گاؤں میں اس کی اولاد میں خاندان کے لوگ اکثر انگلی منہ میں لے کر چوستے ہیں تو پتہ چل جاتا ہے کہ یہ اس آدمی کی اولاد سے ہیں۔

Image no= 5

پھانسی کی سزا معاف

موضع گُھگ کا ایک شخص چودھری خاندان سے قتل کیس میں جیل چلا گیا اور اس کو حکومت برطانیہ کے دور میں سزائے موت کا فیصلہ ملا۔ اس شخص کے کنبے کے افراد باباجیؒ کے پاس اکثر حاضری دیتے رہتے تھے اور دعا کرواتے۔ جب عدالت سے پھانسی دینے کا حکم ہوا تو پھر بھی دعا کے لئے حاضر ہوئے۔ سزا ملنے اور اس کے لواحقین کی آخری ملاقات کا دن مقرر ہو گیا۔ اس شخص کے اقربا باباجیؒ کے پاس دعا کے لئے پھر حاضر ہوئے تو دعا کے بعد انہوں نے فرمایا اس کو زندگی عطاء ہو گئی ہے اور وہ اللہ کے فضل سے گھر واپس آ جائے گا۔ اس کو چارپائی پر نہیں بلکہ اس کو گھوڑے پر سوار کر کے لانا۔ سزا کے ایک دن پہلے حکومت برطانیہ کی ملکہ کی تاج پوشی کے جشن کی خوشی میں اس دن سزا پانے والوں کی معافی اور رہائی کا حکم ہو گیا۔ اس چودھری کو بھی ملی اور گھوڑے پر سوار ہو کر کے باباجیؒ کے پاس حاضری دی تو اس چودھری نے اپنی زمین کا رقبہ جو کھلری کے نام سے اب بھی موسوم ہے ہدیہ میں ملکیتی باباجیؒ کو دیا۔ باباجیؒ نے زمینوں کی ملکیتی کا ہدیہ قبول کرنے کی بجائے فرمایا نوشہرہ سے اپنی زمینیں چھوڑ کر میری ڈیوٹی دینی خدمت اور خدمت خلق کے لئے یہاں لگی ہے، مجھے دنیاداری اور حرص میں مبتلا مت کرو اور ان کو دعا دے کر اجازت فرما دی۔ ایسا ہی ایک واقعہ چودھری مقرب صاحب کی زبانی کہ بکھاری گاؤں کے سردار صاحب کی اہلیہ مزار پختہ یقین و عقیدے سے حاضری دے کر دعا کرتی رہی۔ ایک دن باباجیؒ کی طرف سے خواب میں بشارت ہوئی کہ اللہ کے فضل و کرم سے اس کا خاوند رہا ہو کر گھر آ جائے گا اور کچھ عرصہ بعد ایسا ہی ہوا کہ عدالت نے مقدمہ خارج کر دیا اور وہ رہا ہو کر گھر آ گیا۔

Image no= 6

معذورشخص کو شفامل گئی

مشہور ہے کہ باباجیؒ کے مزار پر حاضری دے کر دعا کی جائے تو شفاء ملتی ہے۔ ایک معزور شخص چلنے سے قاصر تھا، اس کے گھر والے روزانہ مزار پر سلام کرواتے دعا کرتے۔ایک دن اس معزور شخص کو شام کے وقت مزار پر چھوڑ کر گئے تو اس نے مزار پر کہا باباجیؒ چالیس دن ہو گئے ہیں دعا کرتے ہوئے مجھے تو ابھی تک شفاء نہیں ملی۔ کیا دیکھتا ہے مزار کے سرہانے کی طرف جہاں چراغ جلائے جاتے ہیں وہاں سے ایک کالا ناگ نکل کر اس کی طرف جھپٹنے لگا تو وہ آدمی ایک دم ڈر سے اٹھ کر بھاگ کھڑا ہوا۔ بقول اس کے کہ سانپ حویلی تک میرے پیچھے لگا مگر میں بھاگ کر گھر پہنچ گیا۔ سارے حیران ہوئے کہ یہ تو چلنا شروع ہو گیا ہے تو یہ کرامت مشہور ہو گئی۔ اللہ کے ولیوں کے پاس حاضری اور ان کی دعا سے اللہ کریم شفاء بھی بخشتا ہے اور حل المشکلات، مشکلیں بھی آسان فرماتا ہے۔

Image no= 7

شیر کی حاضری و سلامی

گاؤں میں جہاں اپنوں کو فیض حاصل ہوتا ہے وہاں غیر مسلم بھی فیض یاب ہوتے رہے ہیں۔ چوہدری صوبیدار محمد اشرف صاحب نے اپنے بزرگوں کے حوالے سے بتایا کہ جمعرات کو باباجیؒ کے مزار پر شیر حاضری کے لئے آتا تھا۔ ایسا ہوا کہ ایک سکھ اپنی کسی منت، مقصد کے لئے مزار پر حاضری دیتا رہا۔ جمعرات کی شام عشاء کے وقت مزار کے سرہانے بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک شیر آ گیا۔ بقول اس سکھ کے خوف کے مارے وہ سرہانے کے پتھر سے چمٹ گیا۔ اس نے بتایا مجھے ایک آواز سنائی دی اوہوں اور دیکھا کہ شیر مزار پر پائنتی کی طرف تھوڑی دیر کھڑا رہا اور پھر قبر کے گرد میرے پاس سے گزر کر آرام سے حویلی سے باہر چلا گیا۔ میں دور تک اس کو جاتے ہوئے دیکھتا رہا اور پھر بھاگ کر اپنے گھر چلا گیا۔ یہ بات گاؤں میں مشہور ہو گئی تو پھر ہر جمعرات کی رات کو لوگ مزار پر نہ جاتے بلکہ شیر کی حاضری کے منتظر رہتے۔ جمعرات کو اکثر لوگوں نے شیر کو مزار پر حاضری دیتے دیکھا۔ بقول اس حاضری دینے والے سکھ کے کہ باباجیؒ کے پاس حاضری دینے سے میرا مقصد بھی پورا ہوا اور اولاد نرینہ کی نعمت سے بھی سرفراز ہوا۔

Image no= 8

محمدﷺ کے غلاموں کا کفن میلا نہیں ہوتا

ایک دفعہ زیادہ بارش کے باعث سارا قبرستان پانی سے بھر گیا، اور باباجیؒ کی حویلی میں بھی پانی بھر گیا۔ باباجیؒ کی قبر درمیان سے تھوڑی سی بیٹھ گئی۔ قاضی ممتاز صاحب اور برادری کے کچھ لوگوں نے مٹی نکال کر لحد کی پڑیاں دیکھنے کا فیصلہ کیا کہ کہیں کوئی پڑی نہ ٹوٹ گئی ہو، بہرحال قبر پر ختم کلام پاک کر کے قبر کشائی کی گئی۔ مولوی غلام علی صاحب اور مستری فاروق کہتے ہیں کہ جب ہم مٹی نکال رہے تھے، تو خوشبو آنا شروع ہو گئی۔ جب پڑیوں کو دیکھا تو درمیان کی پڑی زمین نرم ہونے کے باعث لحد میں نیچے ہو گئی تھی جب پڑی کو اٹھا کر سیدھا رکھنے لگے تو کمال کی خشبو اور دیکھا کہ کھڈی کا بنا ہوا کھدر کا کفن بھی سلامت ہے اور اس میں باباجیؒ کا جسم مبارک بھی موجود تھا۔ پڑی سیدھی رکھ کر قبر بند کر دی گئی۔ باباجیؒ کے وصال کو 165 سال گزرنے کے باوجود کفن کو بھی مٹی نے نہیں کھایا۔ اللہ اللہ کرنے والوں کو زمیں کی مٹی تک بھی نہیں کھاتی۔

Image no= 9

آبِ شفاء/ ہیپاٹائٹس

گاؤں کے باہر ایک کنویں سے ملک کے دور دراز کے علاقوں سے لوگ ہیپاٹائٹس کے مریضوں کے لئے پینے کا پانی لینے کے لئے آتے ہیں اور نہاتے بھی ہیں۔ منقول ہے کہ باباجیؒ کے ایک پوتے چراغدین نے بھی کنواں کھودنے میں حصہ لیا اور جن کی زمین تھی اور کنواں بنارہے تھے، چراغدین صاحب سے کہا کہ آپ بزرگوں کی اولاد ہیں، دعا کریں پانی میٹھا اور کھلا آ جائے۔ انہوں نے کہا کہ پانی میٹھا، یا گھی۔ اللہ تعالٰی گھی کی طرح پانی عطاء فرمائے گا اور جب پانی نکلا تو ایسے لگا کہ گھی ہے اور خوشی منائی۔ یہ بات باباجیؒ کو ان کے پوتے اور کنویں کے مالکان نے بتائی تو آپ نے فرمایا کہ گھی سے یہ آپس میں لڑتے مرتے رہیں گے۔ کنویں کے مالکان کے گھر میں یرقان جس کو علاقے کی زبان میں پرنے کی بیماری کہتے ہیں، موجود تھی۔ انہوں نے بابا جی سے دعا کروائی کہ شفاء ہو جائے۔ آپ نے دعا کی اور کہا کہ چراغدین گھی نہیں آب شفاء ہے۔ یہ پانی جو پیئے گا اس کو پرنے کی بیماری سے شفاء ملے گی۔ ان کے گھر والوں کو بغیر دوا کے اس پانی کے پینے سے شفاء ملی۔ آہستہ آہستہ یہ کنواں مشہور ہو گیا اور باباجیؒ کے پوتے چراغدین بابا چراغ کھدائی میں حصہ لینے، دعا کرنے اور پھر باباجیؒ کی دعا کا صدقہ اللہ تعالیٰ نے یرقان کے مریضوں کے لئے یہ آبِ شفاء بنایا ہے۔ ملک کے دور دراز علاقوں سے لوگ یہاں آ کر پانی پیتے ہیں اور گھر بھی لے جاتے ہیں۔ کنویں پر بنے غسل خانوں میں نہاتے بھی ہیں۔ ہیپاٹائٹس کے کئی مریضوں کو ڈاکٹر قاضی محمد افضل علوی صاحب نے باباجیؒ کے مزار پر حاضری اور دعا کرنے کے بعد اس کنویں کے پانی کو پینے اور استعمال کرنے کو کہا تو اُنہوں نے مشاہدہ کیا کہ ہیپاٹائٹس کا جو مریض پانی لے کر باباجیؒ کے مزار پر حاضری دیتا اور دعا کرتا تو اکیس دن تک یہی پانی پینے سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے شفاء حاصل ہوئی۔

Image no= 10

عقیدہ / ایمان و یقین

سردار محمد خان صاحب بتاتے ہیں کہ گاؤں و علاقے کے لوگ عقیدت مندی سے کوئی کام کرنے یا دیہاتی لوگوں کے مشاغل بیل ریس ، کبڈی یا اس طرح کے کھیلوں کے مقابلے کے لئے جاتے ہیں تو مزار پر حاضری دے کر جاتے ہیں اور کامیابی حاصل کر کے آتے ہیں۔ اس طرح کے مختلف واقعات قاضی ممتاز صاحب ، چوہدری مقرب خان ، سردار بابو صفدر حیات کے بھائی خضر حیات کی زبانی بھی میں نے سنے ہیں ۔ بابا جی کے بیٹے دینی ترویج و اشاعت، روحانی فیض کے لئے مختلف مواضعات نارنگ، تھنیل کمال، مہروپیلو، پنڈ، ہراج اور بکھاری خورد میں بھی رہے اور وہیں پر آباد ہو گئے ۔ اس طرح ان کی اولاد کے افراد بھی ان مواضعات کے حوالے سے متعارف ہوئے ہیں۔

Image no= 11

سانپ ہی سانپ

گزشتہ سال علوی قرآن اکیڈمی میں صدر مدرس قاری تصدق حسین صاحب کو ایک پریشانی سے گزرنا پڑا۔ قرآن اکیڈمی میں کمرے کا دروازہ کھولا تو آگے سانپ بیٹھا ملا۔ انہوں نے اس کو مار دیا۔ مسجد سے نماز پڑھ کر واپس آئے تو پھر دروازے پر سانپ بیٹھا نظر آیا تو انہوں نے اس کو بھی مار دیا۔ دوسرے بچوں کو قرآن پڑھاتے رہے جس چٹائی پر بیٹھ کر بچے قرآن پڑھتے رہے بچوں نے چھٹی کے وقت جب وہ چٹائی اٹھائی تو اس کے نیچے سے سانپ نکل آیا۔ اس کو بھی مار دیا گیا۔ وضو کرنے لگے تو وضو کی جگہ پر بھی ایک سانپ بیٹھا ملا۔ بہر حال قاری صاحب کی دلیری اور عزم و عمل کے حساب سے اس سانپ کو مارتے رہے۔ ڈاکٹر قاضی محمد افضل علوی صاحب سے بھی کہنے لگے کہ یہ عجیب بات ہے کہ ہر طرف سے سانپ نکل آتا ہے۔ قاضی صاحب نے مارنے سے منع کیا تو انہوں نے حدیث کا حوالہ دیا کہ موذی چیز کو مار ڈالنے کا حکم ہے۔ اس طرح سے انہوں نے تقریباً آٹھ سانپ مارے۔ کیپٹن چوہدری محمد افضل کے بیٹے کی پی سی ہوٹل راولپنڈی میں ولیمے کی تقریب میں گاؤں کے لوگ بھی شامل ہوئے۔ چوہدری ایوب صاحب سے گفتگو کے دوران سانپ والے معاملے کا ذکر آ گیا تو وہ کہنے لگے کہ قاری صاحب نے دربار کے ساتھ کوئی سانپ تو نہیں مارا۔ ڈاکٹر قاضی محمد افضل علوی صاحب کو قاری صاحب نے بتایا تھا کہ دربار کی حویلی میں صفائی کروانے کے دوران اینٹوں سے ایک سانپ نکلا تو انہوں نے مار دیا تھا۔ اس کے بعد یہ سانپوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ چوہدری ایوب صاحب نے بتایا کہ قبرستان میں بعض اوقات سانپ نظر آ جاتے ہیں تو اسے مارتے بھی نہیں اور وہ کسی کو ڈستا بھی نہیں اور چلا جاتا ہے۔ کوئی غلط نیت سے مزار پر جائے تو سانپ اس کے راستے میں رکاوٹ بن جاتا ہے کیونکہ ان کی نسبت بابا جی کے ساتھ بڑی پختہ لگتی ہے۔ انہوں نے اپنے واقعات بتائے کہ میرے پولٹری فارم اور بعض اوقات چارپائی کے نیچے بھی ایک بڑا سانپ اکثر نظر آتا تھا لیکن نہ ہم نے اس کو مارا اور نہ اس نے ہمیں کوئی نقصان پہنچایا۔ اس پر جب قاری صاحب کو قاضی افضل صاحب نے کہا کہ اب سانپ نظر آئے تو کہہ دینا کہ اپنا راستہ لو ہم سے لاعلمی کی وجہ سے غلطی ہوئی ۔ بقول قاری صاحب کے ایک سانپ اکیڈمی کے کمرے میں نظر آیا۔ انہوں نے آواز دے کر ایسے ہی کہا تو وہ سانپ دوسرے کمرے میں چلا گیا، وہاں قاری صاحب اور بچوں نے ڈھونڈا مگر کہیں نہیں ملا، اس کے بعد اکیڈمی میں سانپ نظر نہیں آیا۔ قرآن اور سنت پر عمل پیرا ہو کر زہد و تقویٰ اختیار کرنے والوں کو جو قرب الہی نصیب ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ذریعے زندگی میں بھی اور دنیا سے پردہ کرنے کے بعد بھی لوگوں کو حاصل ہوتا رہتا ہے۔ باباجیؒ کی اولاد کی دینی خدمات سے جیسا کہ مختلف مواضعات کے لوگ مستفید ہوئے۔

©

2025.

All rights reserved.